بقدرِشوق اقرارِ وفا کیا ہمارے شوق کی ہے انتہا کیا میں اپنے حال سے خود بے خبر ہوں تمہاری کم نگاہی کا گِلہ کیا دُعا دل سے جو نکلے کار گر ہو یہاں دل ہی نہیں، دل سے دعا کیا ٭٭٭