* ہر نظر میں خوف کے سائے جھلکتے ہیں ی *
(ڈاکٹر شہاب للت( شملہ
غزل
ہر نظر میں خوف کے سائے جھلکتے ہیں یہاں
دل میں کچھ یار کالا ہے چلو واپس چلیں
پیش خیمہ ہے یہ سنّاٹا کسی طوفاں کا
حادثہ کچھ ہونے والا ہے چلو واپس چلیں
سازشی موسم کے تیور دیکھ کر بھی دوستو!
کیوں قدم گھر سے نکالاہے چلو واپس چلیں
ہم یہ کس دوزخ نما بستی میں آپہنچے جہاں
نفرتوں کا بو ل بالا ہے چلو واپس چلیں
اس دیارِ امن و راحت کے گلی کوچوں میں آج
دہشتوں نے ڈیرہ ڈالا ہے چلو واپس چلیں
ہر طرف ہیں جبر و دہشت کے اندھیرے شہر میں
گائوں میں اپنے اجالا ہے چلو واپس چلیں
٭٭٭
|