* کب سے خاموش سی گم سم سی یونہی بیٹھی *
زخم مسیحائی
کب سے خاموش سی گم سم سی یونہی بیٹھی ہوں
سامنے خط ہے تیرا
اور دل کے آنگن میں
موسمِ درد دبے پاؤں چلا آیا ہے
اور زخموں کی فصل اب کے بہت اچھی ہے
باتوں باتوں میں لگے دل پہ جو
اُس بات کا زخم
دل کی منڈیروں پہ جم جائے جو
اُس رات کا زخم
اس سیاہی میں جو گم ہو گیا
اس ساتھ کا زخم
جو یقین ٹوٹ کے تبدیل ہوا ریزوں میں
روح میں چبھتے کھٹکتے ہوئے ذرات کا زخم
تم نے لکھا ہے کہ
تم بات کے زخموں کو سہنا سیکھو
تم بھی اوروں کی طرح دنیا میں رہنا سیکھو
مشورہ ہے تو بہت خوب
مگر
ایسی دنیا سے کہاں میری شناسائی ہے
یہ ترا خط ہے یا زخمِ مسیحائی ہے
شبنم رحمٰن
|