* اک خوابِ نا تمام کو تعبیر دے گیا *
اک خوابِ نا تمام کو تعبیر دے گیا
یہ کون مجھ کو ریشمی زنجیر دے گیا
ٹکڑے ہوئے ہیں رات کی ناگن کے دیکھئے
دستِ صبح میں کرنوں کی شمشیر دے گیا
وہ نرم نرم لہجہ میں اسکا پکارنا
کتنی میری دعاؤں کو تاثیر دے گیا
اسکا خیال روشنی کا اک مینار ہے
بے نور منظروں کو جو تنویر دے گیا
پت جھڑ کے زرد پتوں پہ لکھا ہے میرا نام
پھولوں کا دیوتا مجھے تحریر دے گیا
******* |