* ہم حدِ ماہ و سال سے آگے نہیں گئے *
غزل
ہم حدِ ماہ و سال سے آگے نہیں گئے
خوابوں میں بھی خیال سے آگے نہیں گئے
کچھ وہ بھی التفات میں ایسا سخی نہ تھا
کچھ ہم بھی عرضِ حال سے آگے نہیں گئے
ہر حد سے ماورا تھی سخاوت میں اُس کی ذات
ہم آخری سوال سے آگے نہیں گئے
سوچا تھا میرے دکھ کا مداوا کریں گے وہ
وہ پُرسشِ ملال سے آگے نہیں گئے
کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعویٰ انہیں بھی ہے
جو حدِ اعتدال سے آگے نہیں گئے
لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر
اس شہرِ بے مثال سے آگے نہیں گئے
شبنم شکیل
Islamabad
(Pakistan)
Mob: xxxxxxxxxx
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|