غزل
اپنے گدا کو خود وہ پُکار ے اُٹھ میرے کالی کملی والے
اُٹھ مرے عاشق اُٹھ میرے پیارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
چاند کی رنگت زرد ہے پیارے صبح کے دیکھ آثار ہیں سارے
ڈوب چلے دم بھر میں ستارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
جن و بشر کو خواب نہیں ہے ارض و سما کو تاب نہیں ہے
غم سے فرشتے غش ہوئے سارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
دل کو کبھی تو راحت پہنچا ۔ ہر دم کی اس رٹ سے بازآ
مان کہاں جاں باز ہمارے اُٹھ مرے میرے کالی کملی والے
رو کے ہمارے ہمارا نام جو لے گا نالہ شب سے کام جو لے گا
ٹوٹ پڑیں گے عرش کے تارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
رات چلی ہے جوگن ہو کر اوس سے اپنے منہ کو دھوکر
لٹ چھٹکائے بال سنوارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
صدموںپہ صدمے دل پہ سہے گادرپہ مرے تا چند رہے گا
جان کو تورے جی کو ہارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
شاد ہر اک کا دل بھر آیا جس نے سنا وہ تاب نہ لایا
تھے یہ غضب کے اُن کے اشارے اُٹھ میرے کالی کملی والے
٭٭٭