غزل
میں شادؔ تنہا اک طرف دنیا کی دنیا اک طرف
سارا سمندر ایک طرف آنسو کا قطرہ اک طرف
اس آفت جاں کو کبھی پردہ اٹھانا ہی نہ تھا
اک سمت عیسیٰ دم بخود و غش میں ہیں موساد اک طرف
ساقی بغیر احوال پہنچا ہے میخانہ کا اب
جام اک طرف ہے سرنگوں خالی ہے مینااک طرف
یارب مفر اُ حسن سے دل کو کسی جانب نہیں
ترچھی نگاہیں ایک سوززلف چلیپااک طرف
وہ تیغ ٹیکے کہتے ہیں’’ دیکھوں تو حق پر کون ہے
میں اک طرف شاد اک طرف سارا زمان اک طرف
واعظ بتوں کو تونے کہا اہل زور تک
اے بے خبر یہ بات پہنچتی ہے دور تک
کیوں کر مٹے گی دل سے ندامت بنائیے
مانا کہ بخش دیں وہ ہمارے قصور تک
یہ خوف ہے کہ ان کو غضب آگیا تو پھر
شامل قصور وار کے ہیں بے قصور تک
٭٭٭