غزل
پروں کے ڈھیر ہیں ویراں چمن میں نہ آشیانے میں
یوں ہی ہوتی چلی آئی ہے اس کے کارخانے میں
وہی اک عشق ہے ہر جا وہی اک حُسن ہے لیکن
الگ شکلیں ہیں سب کی اور جدا سب کے فسانے ہیں
تمنا کو تھی سب گوش بر آواز رہتے تھے
کوئی سنتا نہیں میری صدا، اب یہ زمانے میں
کریں بد مستیاں پی پی کے خود الزام دیں میں کو
یہ نا ہجنار ہیں ایسوں کے ساقی کیا ٹھکانے ہیں
لکھی ہے ایک دن گلچیں کے ہاتھوں ان کی تاراجی
یہ وہ غنچے ہیں جن کی بند مٹھی میں خزانے ہیں
عبث رکھتا نہیں زیر ستم کو گھول کر ساقی
خدا کو علم ہے کس کس کو یہ ساغر پلانے ہیں
بلائے لاکھ درد و دل ہمارا منتیں کر کے
نہ آئے گی اجل بالیں پہ وہ جب تک سر ہانے ہیں
ان ایسوںکی نہ پوچھو واعظوں کوخوف دوزخ کیا
کئی ہے اقرپا اللہ کے کوئی ریگانے ہیں
زیارت کر کے کعبہ کی ہم آئیں اس برس تو پھر
سرِ شوریدہ ہے اپنا بتوں کے آستانے ہیں
نئے ہیں اہلِ حال اس بزم میں لیکن جو سچ پوچھو
وہی مطرب وہی وہی ماہے وہی اگلے ترانے ہیں
کبھی ہم سے نہ شغل شعر خوانی شاد چھوٹے گا
اجل جب تک نہیں آتی یہی رونے رلاتے ہیں
٭٭٭