|
* ایک معمّہ رہی زندگی *
غزل
ایک معمّہ رہی زندگی
جس کو سمجھا نہیں آدمی
چاند تاروں کو پڑھتا رہا
خود سے انجان ہے آج بھی
جل رہے ہیں چراغِ وفا
پھر بھی ملتی نہیں روشنی
قتل بھائی کا بھائی کے ہاتھ
زر پرستی کچھ ایسی بڑھی
جھوٹ ہی جھوٹ ہے ہر طرف
کوئی ڈھونڈے کہاں راستی
صاف گوئی کا ہے یہ صلہ
تجھ سے بدظن ہوئے ہیں سبھی
بھیڑ ہے دوستوں کی شفیق
پھر بھی ملتی نہیں دوستی
شفیق اورنگ آبادی
Vill: Jiwa Bigha, PO: Kataiya
Aurangabad (Bihar)
Mob: 9334921589
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|
|