غزل
شفیق مراد ۔جرمنی
انجام ِ گلستان ِ وفا دیکھ رہا ہوں
میں ظلم کے موسم کی ادا دیکھ رہا ہوں
چھائی ہے خزاں رت کی گھٹا صحنِ چمن میں
پھولوں پہ مگر کھلتی صبا دیکھ رہا ہوں
ہر سمت ہیں بکھرے ہوئے ذہنوں کے مناظر
افکار کو زنجیر بپا دیکھ رہا ہوں
امید کا روشن ہے دیا خیمہٗ جاں میں
میں چشمِ تصور سے ضیا دیکھ رہا ہوں
کہتے ہیں کہ نمرود کی آئی ہے خدائی
لب بند ہیں میں قہر ِ خدا دیکھ رہا ہوں
*************