غزل
اگر چہ کم ہیں مگر ہیں یہاں سخی پھر بھی
گدائے حرص کا کشکول ہے تہی پھر بھی
ہزاروں آفتیں آئیں ہزار رنج و ملال
نظر میں آیہئِ لاتَقنَطوا رہی پھر بھی
تنی ہے سر پہ ردائے فلک تو کیا حاصل
جھلس رہا ہوں تمازت سے دھوپ کی پھر بھی
بہت ہیں اہلِ نظر اپنے شہر میں لیکن
سخن شناس نگاہوں کی ہے کمی پھر بھی
نظر ایاز کی کرتی رہی تلاش بہت
نہ مل سکا کوئی محمود غزنوی پھر بھی
عجیب شخص ہے زخموں سے چور ہے سینہ
سجائے رہتا ہے ہونٹوں پہ وہ ہنسی پھر بھی
کمی جہاں نہیں سامانِ عیش و عشرت کی
وہاں بھی آدمی ملتا ہے کیوں دُکھی پھر بھی
ستم کی تیغ رگِ جاں پہ تھی رواں لیکن
جھلک ملی نہ ذرا اضطراب کی پھر بھی
مثالِ آئینہ شفاف شہر تھا لیکن
سڑک پہ ناچ رہی تھی برہنگی پھر بھی
ہزار رمزِ تصوف بیاں کرے غالبؔ
شفیق ؔ کون کہے گا ا سے ولی پھر بھی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸