غزل
شاہ محمد نصیر الدین دہلوی
عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر
بوسہ نہیں دیتا وہ مسلمان سمجھ کر
مجھ کو نہ دکھا دستِ حنائی تو مری جان
مر جاؤں گا میں پنجۂ مرجان سمجھ کر
اتنا بھی نہ ہو در پئے جاں اے غمِ ہجراں
کہتے نہیں کچھ ہم تجھے مہمان سمجھ کر
لوں کیوں کہ نہ بوسہ لبِ جاں بخش ترے کا
آیا ہوں اسے چشمۂ حیوان سمجھ کر
دل تو تجھے بھولے سے دیا کافرِ بد کیش
پر یاد رہے، دوں گا میں ایمان سمجھ کر
میرے دلِ سی پارہ کی کیا قدر تو جانے
رکھتا ہوں بغل میں اسے قرآن سمجھ کر
جس جا پہ ترے کشتۂ قامت کا ہے مدفن
واں رکھیو قدم سروِ چراغان سمجھ کر
لے کون تمھارے لبِ پاں خوردہ کا بوسہ
ڈرتا ہے ہر اک اخگرِ سوزان سمجھ کر
ق
گل کھائے تھے ہم نے تری الفت میں سراپا
کچھ اور ہی اے شمعِ شبستان سمجھ کر
پر تو نے تماشا دلِ پُر داغ کا میرے
دیکھا نہ کبھو سروِ چراغان سمجھ کر
دیکھا جو نصیرؔ اس کے خط و زلف کو ہم نے
آشفتہ ہوئے سنبل و ریحان سمجھ کر
شاہ محمد نصیر الدین دہلوی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸