طرحی غزل
وفا کا پاس نہ ہو تو روایتیں کیسی
نہ ہو لحاظ ہنر کا تو جدتیں کیسی
ادھر سے آج گزر بھی نہیں ہوا اس کا
بسی ہوئی ہیں ہواؤں میں نکہتیں کیسی
تمھارا حسن یہ طرفہ سوال کرتا ہے
ہیں آئنے کے مقدر میں حیرتیں کیسی
یہ راکھ سرد نہیں ہو رہی کسی بھی طرح
سلگ رہی ہیں مرے دل میں حسرتیں کیسی
محبتوں کی طلب ہے نہ قربتوں کا خیال
’’لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی‘‘
تمھارا ہجر کیا منتخب، معاذ اللہ
یہ خود کو دیتے رہے ہم اذیتیں کیسی
جو ایک پل بھی ہمیں بیٹھنے نہیں دیتیں
ہمارے ساتھ لگی ہیں ضرورتیں کیسی
بڑھا رہی ہیں جو لوگوں میں فاصلے ہر پل
بھری ہوئی ہیں دلوں میں کدورتیں کیسی
درونِ قلب تو موسم ہے برفباری کا
‘‘لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی ’’
خطائیں اس کی بھلا کر بڑھا ہوں اس کی طرف
وہ مجھ مانگ رہا ہے وضاحتیں کیسی
چلے ہیں اس کی بتائی ہوئی ڈگر پہ تو پھر
یہ ہم پہ ٹوٹ رہی ہیں قیامتیں کیسی
خزاں نصیب ہیں، پژمردگی کے مارے ہیں
ہمیں فصیحؔ بہاروں سے نسبتیں کیسی
شاہین فصیح ربانی
********************