طرحی غزل
کوئی لکنت نہیں میری زباں میں
بلالی سوز کیا آئے اذاں میں
تمھارا نام لکھوں کہکشاں میں
‘‘اگر فرصت ملے مجھ کو جہاں میں’’
بھروسہ کیا کرے گی ناؤ اس پر
ہزاروں چھید ہوں جس بادباں میں
یقیں کی منزلیں دھندلا گئی ہیں
مسافر کھو گئے وہم و گماں میں
کہیں خودسر نہ ہو جائیں یہ بندے
انھیں مصروف رکھ کارِ جہاں میں
خبر ملتی نہیں ہے کارواں کی
کہیں گم ہے غبارِ کارواں میں
اسے یہ بات ہی تڑپا رہی ہے
مرا کردار بھی ہے داستاں میں
وہ کیا آئے خوشی کی دسترس میں
جسے رکھا گیا غم کی اماں میں
فصیح امید کا دامن نہ چھوڑو
بہاریں آئیں گی پھر گلستاں میں
شاہین فصیح ربانی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸