شاہین فصیح ربانی
غزل
طلوعِ مہر بھی ہو، دہر میں سحر بھی نہ ہو
فروغِ تیرگی دنیا میں اس قدر بھی نہ ہو
اسے میں اس سے چُرا لوں، اسے خبر بھی نہ ہو
کہ بحرِ اشک بھی گزرے اور آنکھ تر بھی نہ ہو
اگر ہے رشتۂ الفت تو کیسے ممکن ہے
جو حال دل کا اِدھر ہے، وہی اُدھر بھی نہ ہو
ہوائیں شور مچائیں، بگولے رقص کریں
مثالِ دشت جہاں میں کسی کا گھر بھی نہ ہو
بجھادیئے ہیں دیئے اس نے بے قصور کئی
’’ہوائے تند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو‘‘
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میرا ہمراہی
سفر بھی ساتھ کرے اور ہمسفر بھی نہ ہو
روا میانہ روی ہے تو زندگی بھی فصیحؔ
طویل تر بھی نہ ہو اور مختصر بھی نہ ہو
*****