غزل
پڑا ہے واسطہ کیسی خود آگہی سے مجھے
کہ دور لے گئی پل بھر میں جو مجھی سے مجھے
ملا نہیں ابھی نم تیری شعلگی سے مجھے
’’پکارتا ہے ترا جسم کیوں ابھی سے مجھے‘‘
ابھی تو شام نے دہلیز پر رکھا ہے قدم
’’پکارتا ہے ترا جسم کیوں ابھی سے مجھے‘‘
چلیں جو تیز ہوائیں سر احاطۂ زیست
تو خوف آتا ہے اپنی شکستگی سے مجھے
قدم قدم پہ سرابوں کی حکمرانی ہے
نباہ کرنا ہے تا عمر تشنگی سے مجھے
سرِ غرور اٹھایا ، زوال ہی پایا
اگر عروج ملا ہے تو عاجزی سے مجھے
ہر ایک لمحہ نئی چال تیرگی نے چلی
پہ کر سکی متنفر نہ روشنی سے مجھے
یہ اس کے لطف و عنایت کی ہے دلیل فصیح
مثال دیتا ہے وہ میری شاعری سے مجھے
شاہین فصیح ربانی