غزل
شاخِ دل پر آس کے پنچھی آ بیٹھے ہیں
کم ہیں لیکن پھر بھی کافی آ بیٹھے ہیں
عشق شجر کی سرشاری ہے دیکھنے والی
سائے میں دو سچے پریمی آ بیٹھے ہیں
تو چاہے تو بوجھ ہمارا کم ہو جائے
سر پہ اٹھائے غموں کی گٹھڑی آ بیٹھے ہیں
اب کی بار عدو نے الٹی چال چلی ہے
میری راہ میں میرے بھائی آ بیٹھے ہیں
جیسے ان سے کوئی خطا سرزد نہ ہوئی ہو
شکل بنائے بچوں جیسی آ بیٹھے ہیں
شاید اب کے سلوک روا ہو اپنوں جیسا
بھول کے ہم ماضی کی تلخی آ بیٹھے ہیں
اب موضوع فصیح بدلنا بہتر ہو گا
محفل میں کچھ ان کے بھیدی آ بیٹھے ہیں
شاہین فصیح ربانی