غزل
سورج کے لشکارے بدلے جا سکتے ہیں
رُت کے ساتھ نظارے بدلے جا سکتے ہیں
ناؤ کے کھیون ہارے بدلے جا سکتے ہیں
ایسے خواب ہمارے بدلے جا سکتے ہیں
اب تو دریا سے باہر آنا مشکل ہے
اب تو صرف کنارے بدلے جا سکتے ہیں
آبادی سے ویرانے میں جا نہیں سکتے
گلیاں اور چوبارے بدلے جا سکتے ہیں
یاد رہے اک ذات عظیم بھی ہے، جگ والو!
دھیان رہے، ہم سارے بدلے جا سکتے ہیں
دنیا کا فنکار بدلنا، نا ممکن ہے!
ہاں! اس کے فن پارے بدلے جا سکتے ہیں
ان میں جلنا، ان پر چلنا ہم ہی کو ہے
شعلے اور انگارے بدلے جا سکتے ہیں
دل میں ڈر ہے خدا کاورنہ تو قسمت کے
راتوں رات ستارے بدلے جا سکتے ہیں
یار فصیحؔ اک جذبوں کی سچّائی سے
ان آنکھوں کے اشارے بدلے جا سکتے ہیں
شاہین فصیح ربانی