طرحی غزل
میری نظروں کی پارسائی ہے
اس کی تصویر مسکرائی ہے
عاجزی اصل میں بڑائی ہے
پھر کہاں کی یہ خود نمائی ہے
خواب نے یہ خبر سنائی ہے
میری تعبیر سے لڑائی ہے
جسے رونے سے خود نہیں فرصت
اس نے میری ہنسی اڑائی ہے
موت کو یوں گلے لگایا ہے
زندگی دیکھنے کو آئی ہے
جھوٹ تو بول کر دکھائے ذرا
آئنے سے نظر ملائی ہے
سب سمجھتے رہے مجھے فاتح
اس قرینے سے مات کھائی ہے
زندگی کے طویل رستے ہیں
میں ہوں میری شکستہ پائی ہے
اس کے طرزِ عمل کی کیا کہیے
رہزنی ہے نہ رہنمائی ہے
اور دنیا سے کی دوستی سے بلند
تیرے کوچے سے آشنائی ہے
میری ہمت پہ آپ حیراں ہے
اس کے لہجے کی چوٹ کھائی ہے
یوں لجاجت سے وہ منائے تو
مان جانے میں کیا برائی ہے
رخ ہوا سرخیِ حیا سے شفق
کیا انھیں میری یاد آئی ہے
تھم گئی نبضِ کائنات فصیح
کون ساعت کی رونمائی ہے
لٹ گئی شہر آئنہ میں فصیح
آنکھ حیرت خرید لائی ہے
شاہین فصیح ربانی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸