طرحی غزل
احساس کب تغیرِ شام و سحر کا ہے
دن ہو کہ رات، دھیان اسی بے خبر کا ہے
اس حوصلے پہ داد کسی سے نہیں ملی
کچھ بھی نہیں ہے پاس، ارادہ سفر کا ہے
بیٹھے ہوئے ہیں ڈھنگ سے جو انجمن میں ہم
سچی کہیں، قرینہ تمھاری نظر کا ہے
اس کو گلے لگا کے رکھیں گے خوشی خوشی
’’غم سے ہمارا ساتھ تو اب عمر بھر کا ہے‘‘
کس غم میں تو نڈھال ہوا جا رہا ہے دل
وہ گھر ہے کیا، حصار جو دیوار و در کا ہے
روئیں نہ کیوں کہ زندگی بے کار کٹ گئی
ہم پر جو ہنس رہا ہے، ستارہ سحر کا ہے
آتا ہے رشک اس کے مقدر پہ دوستو
جس کو نصیب راہ میں سایا شجر کا ہے
منزل کی جستجو؟ نہیں ایسا تو کچھ نہیں
خود بھی پتا نہیں کہ ارادہ کدھر کا ہے
باتیں ادھر ادھر کی کیے جا رہا ہے وہ
اس کو کہاں لحاظ شبِ مختصر کا ہے
دیکھا انھیں اور ایسے کہ دیکھا نہ ہو انھیں
آنکھوں کا ہے کمال قرینہ نظر کا ہے
آنکھیں ہیں وہ جنھیں دیا نرگس نے احترام
آنسو ہے وہ کہ شائبہ جس پر گہر کا ہے
بننے چلے ہیں آپ فرشتہ، بنیں ضرور
لیکن حضور! اس میں خسارہ بشر کا ہے
الفاظ کا چناؤ ہے دلکش مگر فصیح
سارا معاملہ تو دعا میں اثر کا ہے
شاہین فصیح ربانی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸