* یاد بےمدار ہے *
یاد بےمدار ہے
خلائے دل میں بھٹکتی ہے یاد آوارہ
کوئی مدار نہیں اس کا
گمرہی کے سوا
اپنی بے خودی کے سوا
سنہری، کاسنی، دھانی لَووں کے لاکھوں چراغ
جو نور جال بناتے ہیں کہکشاں کی طرح
لپٹ کے ان سے سنورتی ہے یاد
حد سے پھر گزرتی ہے یاد
کسی ستارے کو رستے میں چھوڑ دیتی ہے
کہیں پہ چاند کا آئینہ توڑ دیتی ہے
کبھی اجالوں میں کچھ تیرگی ملاتی ہے
کہیں اندھیرے میں کچھ نور پھینک آتی ہے
کوئی اصول نہیں اس کا
خود سری کے سوا
خلائے دل میں بھٹکتی ہے یا د آوراہ
٭٭٭
|