* وجود کا آسیب *
وجود کا آسیب
اگر مَیں
کبھی کچھ چراغوں کے بارے میں سوچوں
اُجالوں کی تہہ میں اترنے کی کوشش کروں
تو اس میں
دھندلکوں کے دس بیس پہلو نکل آئیں گے
اگر میں کبھی
منہ اندھیرے سڑک پر ٹہلنے کو نکلوں
تو دوچار آوارہ کتّے
میرے پیچھے پیچھے ضرور آئیں گے
میں گھر پر رہوں
باغ سے جاکے باتیں کروں
یاسفر کی صعوبت سے گزروں
بند آنکھوں تلے جاگنے اور سونے کے ہر ہر عمل میں
کئی سانپ لہرائیں گے
یہ سب طے شدہ ہے کہ ہوتا ہے ایسا ہی
ایساہی کب تک مرے ساتھ ہوگا۔یہ مشکل ہے کہنا
کسی دن۔میں ان سب دھندلکوں سے خود کو ہٹاکر
صداکارکتوں سے پیچھا چھڑاکر
فسوں کارسانپوں سے نیندیں بچا کر
اگر اک کنارے سمٹ بھی گیا
یہ میں جانتاہوں۔
مرے خواب زاروں میں اک آنکھ چپکے سے کھل جائے گی
کوئی در، دریچہ کسی یاد جیسا
مجھے دستکوں میں ڈھکیل آئے گا
کوئی سنگ ساعت، صدی کی طرح
مرے عکس جاں سے چمٹ جائے گی
کہ میں۔ اس خرابے سے بچ کر کہاں جائوں گا جو
مجھی میں چھپاہے
مراد غدغہ ہے
مراوسوسہ ہے
جومیری بلاہے
جو خود میری جاں ہے!
+++
|