* پھروہی برسات *
پھروہی برسات
پھروہی برسات آئی
جان لیوا
ہوک سینے میں اُٹھاتی
ڈوبتی آنکھوں ،مٹے چہروں
دھویں کے پیکروں سے
سرکو ٹکرانے کی کوئی بات آئی
پھروہی برسات آئی
تیز ترطوفان ، نوکیلی ہوائیں، سنسناتی کھڑکیاں
منہ زور روشن دان
دل تنہا !
ہزاروں بے زباں محرومیاں، بوجھل تمنائیں
پرانے غمگساروں کے نئے چہرے
نئے رشتوں کی تہہ داری میں ان دیکھے تقاضے
سابقہ بے چینیوں کی اک نئی تمہید اوڑھے
چیختے اشجارپر
کوئلوں کی گمشدہ بارات آئی
پھر وہی برسات آئی
پھر انہیں گیتوں کا سارا دکھ اٹھائوں
پھر انہیں چہروں سے دیواریں سجائوں
آسماں میں پھروہی سب رنگ دیکھوں
بجلیوں کے دانت، بادل کی جٹائوں کے مقابل خود کو رکھوں
ایک اک قطرے سے سو منظر تراشوں
ایک اک لمحے میں سو صدیاں بتائوں
عمر کی سب سیڑھیاں گنتا رہوں
گنتا رہوں
سب اذیت ناک جذبوں کو مسلسل جذب کر کے
دل، دماغ اور جان کو قابو میں رکھوں
اور دیکھوں
ہولناک آسیب اٹھائے
کیا بھیانک رات آئی!
پھر وہی برسات آئی !!
+++
|