* بھنور جال *
بھنور جال
عجب امتحانوں سے دوچار ہوں
سمجھ میں نہیں آتا
کیا چاہتا ہوں
میں یہ تو نہیں چاہتا وہ کسی اور کی آرزو سے لپٹ جائے
یہ بھی نہیں چاہتا میں کہ وہ میری سانسوں کی رفتار کے ساتھ اُلجھے
میری حقیقت کو جھیلے
میری کثافت میں لہرائے
کہ اس سے تو وہ میری شام و سحر کی صلیبوں کی تعبیر بن کر
بہت جلد اک عام سا روپ ہو جائے گا
رنگ جس میں نہ ہوگا کوئی
صرف اک نام رہ جائے گا
دوسرے سارے رشتوں کی مانند صرف ایک چہرہ
ادنیٰ سا چہرہ!
جو شاید کہ پھر رفتہ رفتہ کئی اور چہروں میں بٹ جائے گا
جسے ڈھونڈنے کے کسی بھی تجسس میں
کوئی نیاپن نہ ہوگا
تو پھر کیا تصرف ہو اس کا
یہی۔؟
کہ میں روز و شب اس کے تازہ تصور سے اپنے تفکر کو آباد رکھوں
اُسے کوئی روزن، کسی در، دریچے کی جانب سرکنے سے روکوں
کہ وہ تو مِرا ہے، مگر صرف میرے قلم کے لئے
کہ نظمیں، غزل، گیت، اشعار جس کے تعلق سے لکھوں
یہ بالکل نہ سوچوں
کہ خود اُس کے اپنے جزیروں کا کیا ہوگا؟
جن کو
کبھی بادلوں کی ضرورت بھ محسوس ہوگی
تو میں کیا کوئی خود غرض ہوں؟
بڑے مخمصے میں گرفتار ہوں
عجب امتحانوں سے دوچار ہوں
٭٭٭
|