* اتنا سکوں کس کام کا؟ *
اتنا سکوں کس کام کا؟
اتنا سکوں کس کام کا؟
دل میں کوئی شعلہ نہیں
لب پہ کوئی صحرا نہیں
آنکھیں سمندر سے الگ
پلکوں پہ اک قطرہ نہیں
خوابوں میں ایک تارا نہیں
منظر میں نظارا نہیں
پیشانیاں سب بے شکن
آسانیاں سب بے محن
بے تابیاں سب پر سکوں
سودائے سرسب بے جنوں
یہ رنگ ہے کس شام کا؟
اتنا سکوں کس کام کا؟
کس کام کے یہ روز و شب؟
کس کام کی یہ محفلیں
کس کام سے پھر دل ملیں
سکھ میں اگر وحشت نہیں
دریا تلے پربت نہیں
رات میں بے چینی نہ ہو
قربت میں دوری ہی نہ ہو
شاخِ گلاب وصل میں
خارِ خط ہجراں نہ ہو
سرشاری آغازِ شوق
انجام پہ حیراں نہ ہو
ساحل تو ہو طوفاں نہ ہو
در ہو نہ آنکھوں میں کوئی
پتھر نہ ہو دل پہ کوئی
پھر شیشۂ جذبات کیا
ہاتھوں میں کوئی ہاتھ کیا
کیا رنگ ایسی شام کا
اتنا سکوں کس کام کا؟
٭٭٭
|