* صبیح ساعتوں کی ایک نظم *
صبیح ساعتوں کی ایک نظم
خوبصورت تتلیو!
اُڑتی رہو، اڑتی رہو
تم اُڑو تو پھول ہنس دے
باغ جھومے
اور موسم مسکرائے
بلبلوں کا گیت، کوئل کی صدا، چڑیوں کا شور
سب دھنک رنگوں میں ایسے جگمگائیں
خوشبوں میں خواب گونجے
آسماں سے دوستی کرنے کو جس کا جی کرے
وہ پرندہ
بھول کر یادیں پرانی، بازوئوں میں پھر نئی پرواز بھرکے
اُڑ چلے تازہ اُمنگوں کی طرف
ہاں تم اُڑو ۔ اُڑتی رہو
اے خوب صورت تتلیو!!
٭٭٭
|