* ہنستا گاتا رستہ دھند میں کھو جاتا *
غزل
ہنستا گاتا رستہ دھند میں کھو جاتا ہے
کتنی آسانی سے یہ بھی ہو جاتا ہے
روشن فصلیں ڈھونڈ کے لے جاتی ہیں آنکھیں
اندھیارے میں کون یہ جگنو بو جاتا ہے
نور کی لڑیاں نور سے یوں بھی مل جاتی ہے
سحر نہیں ہوتی ہے، تارا سو جا تاہے
ساحل کی آواز نہیں سنتی ہیں موجیں
دریا اپنے آپ میں اکثر کھو جاتا ہے
جگنو جگنو تارے پیلے پڑ جاتے ہیں
اڑتے اڑتے سبز پرندہ کھو جاتاہے
+++
|