* گماں چھپا ہے یقین کی کسی گلی میں کہ *
غزل
گماں چھپا ہے یقین کی کسی گلی میں کہیں
میں اس کو شہر میں ڈھونڈوں جو ہے مجھی میں کہیں
تو اک سکوت مسلسل، میں احترام ترا
مگر جو چیخ پڑوں یوں ہی بے خود ی میں کہیں
لہو کی آگ سے روشن یوں شب تمام ہوئی
سحر سمجھائی نہ دے اب تو روشنی میں کہیں
جبیں جو خم نہ ہوئی، اے خدا مرا کیا دوش؟
سجود گم ہوئے جا کر نماز ہی میں کہیں
اسی کو ڈھونڈتے رہنا جو میرے جیسا ہے
دکھائی جو نہیں دیتا مگر مجھی میں کہیں
+++
|