غزل
سزا کی شب تھی، دعا کو مگر خبر نہ ہوئی
ہزار دیپ جلے اور اک سحر نہ ہوئی
عجب طلسم تھا، ہنستے تھے اور صدا بھی نہ تھی
عجیب دکھ تھا کہ روئے پہ آنکھ تر نہ ہوئی
وہ کیا غروب تھا، ہر پل طلوع جیسا تھا!
وہ کیسی شام تھی جو رات بھر بسر نہ ہوئی!
ہر آنے والی نئی رت نے آبیاری کی
لہو کی شاخ تھی، ٹوٹی پہ بے ثمر نہ ہوئی
خزاں نہیں تھی مگر گل چمن کو چھوڑ گیا
پھر اس کے بعد ہمارا اتنی معتبر نہ ہوئی
+++