* سوچتا ہوں کہ اُسے کون سا منظر کہتا *
غزل
سوچتا ہوں کہ اُسے کون سا منظر کہتا
ریت کا جسم تھا، کیا ہاتھ لگا کر کہتا
یوں تو قطرہ ہی سمجھتا رہا عمر مگر
جان لیتا تو بہر حال سمندر کہتا
یہ تو اچھا ہی ،ہوا مٹھی کھلی ہے میری
ورنہ ہر شخص مجھے اپنا مقدر کہتا
ویسے تو دونوں ہی اُکتائے ہوئے تھے لیکن
وہ روادار نہ تھا، میں اسے کیونکر کہتا
قرب کی دھوپ سے بے زار سبھی تھے شاہدؔ
کون کس شخص کو نزدیک بلا کر کہتا
٭٭٭
|