* ایک دریا رواں نہیں ملتا *
غزل
ایک دریا رواں نہیں ملتا
ورنہ ساحل کہاں نہیں ملتا
صحن ہے یا فقط دریچہ ہے
اب مکمل مکاں نہیں ملتا
بارشیں کتنی تیز لگتی ہیں
جب کہیں سائباں نہیں ملتا
روشنی بے سحر بھی ہوتی ہے
ہر شرر کو دھواں نہیں ملتا
صرف غم کی زمین ہوتی ہے
ہجر میں آسماں نہیں ملتا
اے خدا تجھ سے ہٹ کے کیا سوچوں
در کوئی درمیاں نہیں ملتا
٭٭٭
|