* جو بھید اصل تھا وہ کبھی کُھلا ہی نہ *
غزل
جو بھید اصل تھا وہ کبھی کُھلا ہی نہیں
میں جس کا عکس ہوں وہ میرا آئینہ ہی نہیں
اُداس بیٹھا ہے آئینہ بیچنے والا
کہ اس محل میں کوئی خود کو جانتا ہی نہیں
ہم اپنی دستکیں محفوظ رکھ کے کیا کرتے
کسی مکان میں دروازہ کوئی تھا ہی نہیں
بھٹکتی پھرتی ہیں یادو ں کی کشتیاں کیا کیا
عجب ہے دل کا سمندر کہ راستہ ہی نہیں
نہ کوئی ڈور ، نہ بندھن ، نہ راستہ، نہ غبار
یہی کہ اس کے مرِے بیچ فاصلہ ہی نہیں
٭٭٭
|