* سُنیںنہ اب کوئی قصہ،اُبھرنے والو *
غزل
سُنیںنہ اب کوئی قصہ،اُبھرنے والوںسے
کہ ڈرچکے ہیں بہت یوں بھی،ڈرنے والوںسے
سندملی تھی انہیںسنگ آشنائی کی
وہ ڈرگئے تھے حبابوںپہ مرنے والوں سے
ادائے تلخ کلامی کادرد سب کوتھا
گلہ کسی کو نہ تھاکان بھرنے والوں سے
گزرتے لمحوں کے مقروض بن کے نکلے تھے
حساب لینے لگے تھے ٹھہرنے والوں سے
ہرایک نرم میں شاہد زبان گنگ رہی
بہت قریب تھے ہم بات کرنے والوں سے
٭٭٭
|