* مراوجودسمندر!،چلویہی،کچھ تو *
غزل
مراوجودسمندر!،چلویہی،کچھ تو
لبوںپہ پہلے سجائے وہ تشنگی کچھ تو
بہرلحاظ ضروری ہے آئینہ لیکن
اغل بغل سے گزرتے ہیں لوگ بھی کچھ تو
یہ اعتبارکہ ہم چہرے ہی کوکھوآئے
یہ انتظارکہ پہچانتاکوئی کچھ تو
بہت ہے قیمتی اکتاہٹوںکاسرمایہ
بلاسبب نہیں کچھ توہے زندگی کچھ تو
بلاسے کھوگئی منزل شکستہ خوابوںکی
نئے نشان بنائے گی گمرہی کچھ تو
یہ مانتاہوںبُرامانتانہیںلیکن
وقاررکھتاہے شاہدؔوہ آدمی کچھ تو
٭٭٭
|