* یازمانے سے ابھی میںآشناکچھ بھی نہ *
غزل
میرے سرسے جوبھی گزراسانحہ کچھ بھی نہ تھا
یازمانے سے ابھی میںآشناکچھ بھی نہ تھا
عشق، آدم، حُسن، حوا، سانپ، جنتا اور گناہ
جاننا ہر شئے کو تھا، پہچاننا کچھ بھی نہ تھا
اُن دنوں کا ذکر کیا جب بے تکلف خوب تھے
دوستوں کے درمیان یہ فاصلہ کچھ بھی نہ تھا
غوطہ زن ہونے کے پہلے متفق تھے سب کے سب
جھیل کے اُس پار کوئی فیصلہ کچھ بھی نہ تھا
گرتی دیواروں میں جلاتی رہی رشتوں کی دھوپ
اُس اندھیرے میں کسی کو سوجھتا کچھ بھی نہ تھا
لوگوں نے ہی بخش دی تھیں چار چھ رُسوائیاں
ورنہ شاہد عشق میں اپنے دھرا کچھ بھی نہ تھا
٭٭٭
|