* اب قہقہوں میں اور ہی جلوے سمائے ہی *
غزل
اب قہقہوں میں اور ہی جلوے سمائے ہیں
اشکوں کی شب گزار کے ہم مسکرائے ہیں
غم اس کو کوئی اور، مرا حادثہ کچھ اور
شبنم نے میرے ساتھ ہی آنسو بہائے ہیں
جب آنسوئوں میں پھول کھلے تب پتہ چلا
ہم نے خوشی کے نام پہ کانٹے اُگائے ہیں
وہ ایک شہر چھوڑ کے اوجھل ہوا تو کیا؟
سو شہر اپنی ذات میں ہم نے بسائے ہیں
یوں تیری رہ گزر ہمیں آسان کب نہ تھی
ہم نے ہی کچھ، اصول کے، پتھر لگائے ہیں
٭٭٭
|