* کوئی منظر نہ موسم سامنے ہے *
غزل
کوئی منظر نہ موسم سامنے ہے
مگر وہ ہے کہ ہردم سامنے ہے
محبت سر بلندی چاہتی ہے
پھر اک آنچل کا پرچم سامنے ہے
کہیں خوشبو، کہیں جھنکار سی ہے
وہی تو ہے جو پیہم سامنے ہے
مری آنکھوں سے کب اوجھل نہیں ہے
وہ اک لمحہ جو ہردم سامنے ہے
وہ کیا شئے تھی ،خطوں میں بولتی تھی
یہ کیا شئے ہے ،مجسم سامنے ہے
٭٭٭
|