* اُفق پر نئے رنگ ڈالے گئے *
غزل
اُفق پر نئے رنگ ڈالے گئے
لو، ہم ڈوھنڈ کر پھر نکالے گئے
ترا پھول کوئی نہ آیا مگر
بہت ہم پہ پتھر اچھالے گئے
وہ طوفان میں تیری ننھی سی یاد
خدا کی قسم ہم بچالے گئے
بڑے شوق سے تیرے خواب اائے تھے
مرے دور کا سلسلے گئے
گھٹا دھوپ، موسم،’ ہوا چاندنی
کھلونوں پہ ٹالے گئے
جہاں اپنی تھوڑی سی پہچان تھی
اسی شہر سے ہم نکالے گئے
سزا دینے آئے تھے شاہد مگر
عجیب آدمی تھے ،دعاء لے گئے
٭٭٭
|