* پھولوں کے رنگ و بو میں کمی پائی جات *
غزل
پھولوں کے رنگ و بو میں کمی پائی جاتی ہے
اُس کی روایت اب نہیں دہرائی جاتی ہے
کھوئے تو کوئی رنگ نہیں رنگِ یارسا
سمجھے تو رائیگاں چمن آرائی جاتی ہے
ترکِ تعلقات بھی کچھ ہونا چاہئے
یکسانیت سے زندگی اکتائی جاتی ہے
آنکھوں میں شام، ہونٹوں پہ بے جان دوپہر
اب تو طبیعت ایسے بھی بہلائی جاتی ہے
بُجھتے دئیے، سسکتے دئیے، چیختے دئے
شاہد جمیل! صبح ابھی آئی جاتی ہے!
٭٭٭
|