* سفر تمام ہو چکا ہے، اب اُسے نہ ڈھون *
غزل
سفر تمام ہو چکا ہے، اب اُسے نہ ڈھونڈئیے
غبارِ راہ بن کے بے سبب اُسے نہ ڈھونڈئیے
جنون شوق میں کسی سوال کا گزر کہاں
نوازشوں میں کیا ہوا غضب اُسے نہ ڈھونڈئیے
وہ سارے مسئلوں کا حل کسی گلی میں قید ہے
تمام شہر مسئلہ طلب ،اُسے نہ ڈھونڈئیے
تبسم اس حجاب کا ہے برق ریگ زار کی
سراب ہے، یہ رسمِ زیر لب ،اُسے نہ ڈھونڈئیے
جمیل ہر نئی سحر بذات خود اک آس ہے
کہیں بھی انتہا نہیں ہے، کب اُسے نہ ڈھونڈئیے
٭٭٭٭ |