* یہ کس مقام پر لاکر دشائیں روتی ہیں *
غزل
یہ کس مقام پر لاکر دشائیں روتی ہیں
کہ ہم ہنسے تو ہماری ادائیں روتی ہیں
بکھرتے برگ پہ یہ کس کا نام لکھا ہے
لپٹ لپٹ کے شجر سے ہوائیں روتی ہیں
بُرا ہوا جو چلی آئی رُت معافی کی
کسی کی آنکھ میں میری سزائیں روتی ہیں
چلو اک آدھ غبار ہ اڑا دیا جائے
سنا ہے آج کل اس کی فضائیں روتی ہیں
خلا کے دور میں اب بازگشت کچھ بھی نہیں
جہاں رُکی ہیں وہیں پر صدائیں روتی ہیں
٭٭٭
|