* لہو لہو سا، یہ چہرہ! گلاب دیکھوں گا *
غزل
لہو لہو سا، یہ چہرہ! گلاب دیکھوں گا
ترا وجود ہے ریشم تو خواب دیکھوں گا
تمہاری آنکھ سے تنہائی میں ٹپک لیٹتا
خبر جو ہوتی، کبھی یہ عذاب دیکھوں گا
سنا ہے، لوگ کہیں خود کو بھول آتے ہیں
مجھے بھی دیکھنے دو، میں بھی خواب دیکھوں گا
مجھے بھی خود کو بدلنا ہے اے مرے موسم!
کبھی قریب سے تیرا شباب دیکھوں گا
تمام عمر گذاری ہے کونپلوں کی طرح
میں زرد پتوں پہ اپنا حساب دیکھوں گا
۔۔۔
|