* پتھر کے دریچے سے وہ چہرہ نہیں اُبھ *
غزل
پتھر کے دریچے سے وہ چہرہ نہیں اُبھرا
پتھراگئی جب آنکھ تو پھر کیا نہیں اُبھرا
شبنم نہیں جاگی ہے کہ شعلہ نہیں اُبھرا
اِک تیرے سوا درد میں کیا کیا نہیں اُبھرا
اِک تیرے تعلق میں اُترنے کا صِلہ تھا
چہرے پہ مرے کون سا چہرہ نہیں اُبھرا
پہلے تو نگاہوں کو مِلی دعوتِ دیدار
پھر قصرِ تمناسے دریچہ نہیں اُبھرا
سنتے ہیں کہ ہر ڈوبتی کشتی وہ بچائے
کہتے ہیں کہ موجوں سے کنارہ نہیں اُبھرا
آنکھوں کے دئیے کب سے جلا رکھیں ہیں شاہدؔ
کھڑکی میں ابھی تک کوئی سایہ نہیں اُبھرا
*** |