* کبھی ہنسی، کبھی آنسو کبھی غُبار ہ *
غزل
کبھی ہنسی، کبھی آنسو کبھی غُبار ہوں میں
مجھے کھنگالو کہ جذبوں کا ریگ زار ہوں میں
بدن ہے کانچ کا لیکن محققو ٹھہرو
سنبھل کے ہاتھ لگانا کہ سنگسار ہوں میں
ہر التجا مجھے ٹھکرا کے لوٹ جاتی ہے
خلامیں کوئی معلق سا کوہسار ہوں میں
میں سب کے پاس ہوں پر کوئی میرے پاس نہیں
کسی تماشے یا سرکس کا اشتہار ہوں میں
سمٹ گیا ہوں تو اچھا ہے ٹھوس کی صورت
مجھے نہ چھیڑو کہ تخریب کا غبار ہوں میں
۔۔۔
|