* حسرت کی اوس تک نہیں اے آرزو کی آگ *
غزل
حسرت کی اوس تک نہیں اے آرزو کی آگ
جلتی ہے اور کس لئے میرے لہو کی آگ
بحرِ جنوں! ترا پسِ منظر بھی خوب ہے
ہر برف زارِ شوق میں اک جستجو کی آگ
ہاں مجھ میں کوئی سرد ہوا چلنی چاہئے
آوارہ پھر رہی ہے ترے رنگ و بو کی آگ
شاہد چراغ ساتھ نہ دیں گے تو کیا ہوا
روشن رکھے گی دل کو غمِ سرخ رو کی آگ
۔۔۔
|