* تمام شہر کی نظریں جھُکا کے چلتا تھ *
غزل
تمام شہر کی نظریں جھُکا کے چلتا تھا
میں اپنے آپ سے ملتا تو آنکھیں مَلتا تھا
مری ہتھیلی کو پڑھتا بھی کیسے دست شناس
خطوں کا رنگ شکن در شکن بدلتا تھا
حصارِ رشک سے باہر کبھی نہیں آیا
مرِے خلوص کا قائل تھا، کم ہی جلتا تھا
اب اُس کے حق میں کوئی شام کا سماں بھی نہیں
جو اُگتی دھوپ کے شانہ بشانہ چلتا تھا
اِسے عجب نہ کہو، یہ مِری حقیقت ہے
تباہ میں ہوا اور وقت ہاتھ ملتا تھا
۔۔۔۔
|