* میں جن کو ڈھونڈ رہا تھا شبِ عتاب کے *
غزل
٭……شاہد جمیل
میں جن کو ڈھونڈ رہا تھا شبِ عتاب کے پاس
کھڑے ہوئے تھے وہ آنکھوں میں میری خواب کے پاس
پتہ بتا کے تمہیں کہہ گیا ہے آنے کو
وہ منتظر ہے بہت دیر سے شباب کے پاس
نگاہِ شوق کو وسعت شناس ہونے دو
تمہیں ببول بھی مِل جائیں گے گُلاب کے پاس
مِری شَبوں میں اُترنے سے کچھ گھڑی پہلے
تمہاری یاد ٹھہرتی ہے اضطراب کے پاس
اُمید افزا دھماکہ قریب ہے شاہدؔ
ٹہل رہا ہے کوئی دردِ بے حساب کے پاس
|