* اس کا قصّہ نقابیں کھینچ! *
غزل
٭……شاہد جمیل
اس کا قصّہ نقابیں کھینچ!
خیمۂ خواب کی طنابیں کھینچ!
ہے عدو کو پڑھائی کا چسکا
وار کرنا ہے تو کتابیں کھینچ!
ریک پر رینگتی ہے خاموشی
کوئی کہرام اٹھا شرابیں کھینچ!
بے حسی کی سڑک سلامت ہے
چل یہ جذبات کی جرابیں کھینچ!
پیٹھ پر گولیاں چلاتا جا!
سامنے سے مگر نہ قابیں کھینچ!
******* |