* جو بھید اصل تھا وہ کبھی کھلاہی نہی *
غزل
٭………شاہد جمیل
جو بھید اصل تھا وہ کبھی کھلاہی نہیں
میں جس کا عکس ہوں وہ میرا آئینہ ہی نہیں
اداس بیٹھا ہے آئینہ بیچنے والا
کہ اس محل میں کوئی خود کو جانتا ہی نہیں
ہم اپنی دستیں محفوظ رکھ کے کیا کرتے
کسی مکان میں دروازہ کوئی تھا ہی نہیں
بھٹکتی پھرتی ہیں یادوں کی کشتیاں کیا کیا
عجب ہے دل کا سمندر کہ راستہ ہی نہیں
نہ کوئی ڈور، نہ بندھن ، نہ راستہ، نہ غبار
یہی کہ اس کے مرے بیچ فاصلہ ہی نہیں
****** |