* کبھی نہ کھُل کے ملے اُس سے ایسی بات *
غزل
٭……شاہد جمیل
کبھی نہ کھُل کے ملے اُس سے ایسی بات نہ تھی
مگر اب اتنی بھی آسان شرحِ ذات نہ تھی
گِلے جو ہاتھ پکڑتے تو ہم کو غم کیا تھا
ہمارے پائوں میں زنجیر التفات نہ تھی
بچھڑتے دشت کی مٹّی تھی، پائوں کستی تھی
اُکھڑتے خیموں کی بنیاد بے حیات نہ تھی
تھی کائنات سمندر تو اپنی ذات حباب
پر اپنی ذات میں ڈوبے تو کائنات نہ تھی
وہ خواب اور ہی تھے، پھول بن کے جو مہکے
ہماری آنکھوں میں خوشبو سی کوئی بات نہ تھی
فنا کے بعد ہمیں ملنے آئی تھی شاہدؔ
وہ ایک نرم لطافت جو بے ثبات نہ تھی
****** |